Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”یہ کیا کہہ رہی ہیں آپ عادلہ ایسا کس طرح کر سکتی ہے؟ وہ اتنی آزاد کس طرح سے ہو گئی جو اس نے عزت کا بھی ذرا خیال نہیں کیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی؟“ زینب کو سخت دھچکہ لگا تھا صباحت سے سب سن کر۔
”جب شیطان کا وار چل جائے تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے۔“ وہ دھیمے لہجے میں گویا ہوئیں۔
”میری عقل کام نہیں کر رہی ہے آپی،عادلہ کو کچھ تو سوچنا سمجھنا چاہئے تھا۔
وہ کس گھر کی بیٹی ہے کس غیور و غیرت مند بات کی اولاد ہے آپ کے سسرال میں تو کسی معمولی سی بے حیائی کا تصور تک محال ہے وہ اور کس طرح بن بیاہی ماں بن بیٹھی ہے۔“ زینب کے حواس اڑے ہوئے تھے۔
”میں تو پہلے ہی پریشان ہوں اور تم مت کرو مجھ سے ایسے سوال کہ میں مزید پریشان ہوں… جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ کیوں اور کیسے ہوا یہ سوال اہمیت نہیں رکھتا ہے اب تو یہ بتاؤ،یہ معاملہ کس طرح صاف کرنا ہے میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا ہے کس طرح اس معاملے کو ختم کروایا جائے۔


فیاض کے تعلقات تمام بہترین ڈاکٹرز سے ہیں میں کسی سے ایسی بات کر بھی نہیں سکتی۔“ ان کے انداز میں جھنجلاہٹ تھی زینب بہن کی طرف دیکھ کر رہ گئی۔
”دیکھی ہوں آپی،فی الوقت تو ایسی کوئی گائنالوجسٹ میری نظر میں نہیں ہے آپ شہریار سے بات کریں اور اس کو کہیں وہ سیدھے طریقے سے عادلہ سے نکاح پڑھوائے وہ اس طرح کیسے صاف بچ سکتا ہے۔“
”یہ تو بعد کی باتیں ہیں ابھی تو عادلہ کی بے وقوفی نے مجھے چپ رہنے پر مجبور کر دیا ہے بھاگنے میں اس کو نہیں دوں گی۔
”گھر میں عائزہ کے علاوہ کسی کو خبر نہیں ہو گی عادلہ کی حالت کی؟“
”عائزہ کو بھی خبر نہیں ہونے دی ہے میں نے شادی کے بعد وہ بھی دادی کی زبان بولنے لگی ہے ہر بات میں اس کو میری نقص نظر آتا ہے شادی کے بعد وہ میرے سر پر بیٹھی ہے اور تم اس ماں کے غلام سے معلوم تو کرو وہ کب تک عائزہ کو یہاں بیٹھا کر رکھے گا؟“
”آج کال آئی تھی اس کی،وہ شادی کر رہا ہے۔
“ زینب کے دھیمے لہجے میں کی گئی بات اس کے سر پر بم کی طرح بلاسٹ ہوئی تھی وہ حق دق اس دیکھے گئیں سن دماغ کے ساتھ۔
”میں آپ کی طرف ہی آنے والی تھی۔“ زینب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اس کی بہن کی ناعاقبت اندیشی خود سری و من مانی کرنے کی عادت ان کے اور بیٹیوں کیلئے سخت کڑی سزا بن گئی تھی کہ پے در پے صدموں کے وار ان پر ہو رہے تھے۔
”یہ کن ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہے ہم کو؟ ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے کس پر ستم ڈھائے ہیں؟“ شدید ترین صدمے نے انہیں دہلا کر رکھ دیا تھا وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں گویا ہوئیں۔
”میری عائزہ کو خبر ملے گی تو اس کے دل پر کیا گزرے گی شادی کے چند ہفتوں بعد ہی اس مردار نے اس پر سوکن لا بٹھائی ہے۔“
”میں نے تو بہت سمجھانے کی کوشش کی فاخرہ کو مگر اس پر تو گویا بدلہ لینے کا بھوت سوار ہو چکا ہے وہ عائزہ سے بدلہ لینا چاہتا ہے۔“
”یا میرے اللہ،میں کن پریشانیوں میں مبتلا ہو گئی ہوں؟ ایک کے بعد ایک آفت مجھ پر ٹوٹ رہی ہے میں کیا کروں؟“ وہ رو پڑیں۔
###
وہ دادی کے کمرے سے نکل کر سیدھا اپنے کمرے میں آیا… اس کا تنفس بے حد تیز ہو رہا تھا۔ رگ و پے میں انگارے سے دہک رہے تھے موسم میں خاصی خنکی تھی اور اس خنکی میں بھی اس کی کنپٹیوں و پیشانی پر پسینہ بہہ رہا تھا۔ پارس کی ناپسندیدگی وہ ہزار ہا گستاخیوں کے باوجود بھی اس کا دل اس کی محبت سے دستبردار ہونے کو راضی نہ تھا۔ پارس کا نام اس کے علاوہ کسی اور کے ساتھ لیا جائے وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا وہ نامعلوم کب تک ٹہلتے ہوئے اپنے جذبوں و حمیت میں لگی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔
سوچتا رہا پری کو کس طرح راضی کیا جائے؟ وہ اس کے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ اب اس کو مذنہ کی ناراضی کی بھی پروا نہ تھی۔ ان کی خود غرضی کی وجہ سے ہی دادی ہسپتال پہنچی تھیں اور دو ہفتے بعد بھی وہ خود کو سنبھال نہ سکی تھیں بستر کی ہو کر رہ گئی تھیں۔
”میں نے ہمیشہ ممی کی خواہشوں کا احترام کیا ہے اور جواباً مما مجھے کیا دے رہی ہیں بے سکون زندگی،ناپسندیدہ لائف پارٹنر،زندگی ایک بار ملتی ہے اور میں اس اکلوتی زندگی کو خراب کرنا نہیں چاہتا۔
انجوائے کرنا چاہتا ہوں۔ جو پارس کے بغیر ممکن نہیں ہے اور ابھی تو اس پاگل لڑکی کو منانا بھی ایک بڑا ہیڈک ہے۔“ اس کے اندر بے حد سوچ و بچار کے بعد طمانیت ابھری،وجیہہ چہرے پر ایک عرصے بعد دلکش شوخ مسکراہٹ ابھری اور وہ سوچنے لگا۔
###
”پری… دادی کو کیا ہو گیا ہے ان کو ہر وقت تمہاری اتنی فکر کیوں رہنے لگی ہے تمہاری شادی جلد ہو جائے اس کیلئے لمبے لمبے وظیفے شروع کر دیئے ہیں انہوں نے حالانکہ اب ان سے زیادہ بیٹھا نہیں جا رہا ہے۔
“ وہ لاؤنج میں بیٹھیں کافی پیتے ہوئے باتیں کر رہی تھیں معاً عائزہ کو یاد آیا تو وہ مسکرا کر شوخ لہجے میں پوچھنے لگی۔
”ان کا کوئی وظیفہ کامیاب ہونے والا نہیں ہے میں شادی نہیں کروں گی۔ دادی جان کو کہہ چکی ہوں مگر…!“
”ارے ایسے تو مت کہ۔“
”میں سچ کہہ رہی ہوں میں شادی کرنے والی نہیں ہوں کسی سے بھی۔“ وہ قطعیت بھرے انداز میں سنجیدگی سے بولی۔
”اچھا تم شادی نہیں کرو گی یہ فیصلہ چچا جان کو سنا دو جا کر وہ تمہاری بات پکی کر چکے ہیں اپنے بھائی کے بیٹے سے۔“ طغرل نے وہاں آتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
”یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ طغرل بھائی۔“ عائزہ اچھل کر رہ گئی۔
”جو بھی کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں سچ کے سوا کچھ نہیں ہے۔“ اس کی شوخ نظریں پری کے چہرے پر تھیں جہاں حسب توقع ناگواری پھیلی ہوئی تھی وہ اس کے برابر والے صوفے پر بیٹھ گیا۔
”میں آپ کیلئے کافی لاتی ہوں۔“ عائزہ اٹھتے ہوئے بولی ساتھ اس کے پری بھی اٹھنے لگی تو طغرل نے بڑے استحقاق بھرے انداز میں اس کا ہاتھ پکڑ لیا جبکہ عائزہ مسکراتی ہوئی چلی گئی۔
”کہاں جا رہی ہو،بیٹھ جاؤ آرام سے یہاں پر۔“
”ہاتھ چھوڑیں میرا۔“ وہ اس کی مضبوط گرفت سے ہاتھ چھڑا نہ پائی تھی۔
”تم نے پوچھا نہیں تمہاری شادی کس سے ہو رہی ہے؟“
”مجھے ایسے مذاق قطعی پسند نہیں ہیں۔
”مذاق کون کر رہا ہے تم سے۔“ وہ اس کا ہاتھ جکڑے بیٹھا تھا۔
”میں نے کہا نا میں کسی سے بھی شادی نہیں کروں گی۔“ وہ رندھی ہوئی آواز میں آہستگی سے بولی۔
”مذنہ آنٹی درست کہتی ہیں میں نے بچپن سے ادھورے رشتے برتے ہیں۔ ادھوری محبتیں میرے حصے میں آئی ہیں مجھے وہ مکمل ماحول نہیں ملا جو ایک ایسے گھر میں ہوتا ہے جہاں ماں اور باپ ساتھ ساتھ محبت سے رہتے ہیں جو اپنے بچوں کیلئے جیتے اور مرتے ہیں اور مجھے ایسا کوئی رشتہ نہیں ملا میری شخصیت میں دراڑیں ہی در اٹیں ہیں۔
”اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے پارس اور مجھے تمہارے کسی ادھورے پن سے فرق نہیں پڑتا۔ زندگی میں تمہارے ساتھ گزاروں گا۔ میری محبت تمہارا سارا ادھورا پن دور کر دے گی یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔“ وہ اس کے روبرو کھڑا ہو کر بھاری لہجے میں کہہ رہا تھا۔
”ایسی باتیں مجھے انسپائر نہیں کرتیں طغرل بھائی… جائیں پلیز یہاں سے۔“ وہ ایک جھٹکے سے ہاتھ چھڑا کر آگے بڑھی تھی اور دوسرے لمحے ہلکے سے فائر کی آواز آئی تھی اس نے مڑ کر دیکھا طغرل کے ہاتھ میں پستول تھا اور اس کے جسم سے تیزی سے خون نکل رہا تھا۔
###
برسوں کے انتظار کا انجام لکھ دیا
کاغذ پہ شام کاٹ کر پھر شام لکھ دیا
بکھری پڑی تھیں ٹوٹ کر کلیاں زمین پر
ترتیب دے کر میں نے تیرا نام لکھ دیا
ایک لمحے کیلئے وہ ساکت ہو گئی۔
آنکھیں پھٹ گئیں،طغرل کے بائیں بازو سے تیزی سے خون نکل رہا تھا اور وہ جنوبی انداز میں ابھی دوسرا فائر بھی کرنے والا تھا کہ وہ چیختی ہوئی اس کے دائیں ہاتھ سے لپٹ گئی اور پستول چھیننے کی کوشش کرنے لگی۔
فائر کی آواز سن کر کچن کی سمت جاتی ہوئی عائزہ بھی بھاگ کر آئی تھی اور اندر کی صورت حال دیکھ کر بدحواسی کے انداز سے وہ بھی پری کی مدد کرنے لگی،اب وہ دونوں اس کے بازو کو جکڑنے کی سعی کر رہی تھیں۔
”خدا کے واسطے طغرل بھائی چھوڑیں پستول کو یہ کیا کر رہے ہیں آپ؟ خون دیکھیں کتنی تیزی سے بہہ رہا ہے آپ کا۔“ طغرل کا جنونی انداز ہنوز برقرار تھا وہ ان کی گرفت سے اپنا بازو چھڑانے کی سعی کر رہا تھا اسی کشمکش میں پستول اس کے ہاتھ سے گر گیا تھا۔
پری نے پھرتی سے پیر مار کر پستول صوفے کے نیچے کر دیا،طغرل کو اٹھانے کی مہلت نہ ملی تھی۔ لمحوں میں یہ سب ہوا تھا۔
”تم کو ہر بات مذاق محسوس ہوتی ہے تو اب مجھے کیوں روکا؟ مذاق کرنے دیتیں،جذباتیت میں نشانہ چوک گیا میرا وگرنہ یہ مذاق تم کو ہمیشہ ہمیشہ یاد رہنے والا مذاق تھا۔“ گرین کلر کی شرٹ کی آستین سرخ ہو رہی تھی مگر اسے اس کی کوئی فکر نہیں تھی وہ پری کو گھورتے ہوئے کہہ رہا تھا جو سخت پریشان ہو رہی تھی۔
”گھر میں کوئی بھی نہیں ہے عائزہ! تم پاپا کو کال کرو پلیز۔“ طغرل کے بازو سے نکلنے والا خون کارپٹ پر گرنے لگا لائٹ پنک کلر کا کارپٹ سرخ ہوتا جا رہا تھا جبکہ وہ بے پروا انداز میں کھڑا تھا۔
”رہنے دو عائزہ! مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔“
”کیسی بات کر رہے ہیں آپ؟ کیوں سزا دے رہے ہیں خود کو،ذرا دیکھئے تو کس قدر بلیڈنگ ہو رہی ہے۔
“ عائزہ رونے لگی۔
”ہونے دو۔“ وہ اپنے بازو کو دیکھتے ہوئے کٹھور پن سے بولا۔
”اس طرح تو آپ کی جان جا سکتی ہے طغرل بھائی۔“
”جانے دو،اس طرح کسی کو قرار تو آئے گا۔“ اس کا لہجہ ضدی تھا،پری کو معلوم تھا وہ اس کو سنا رہا ہے اور جو کہہ رہا ہے وہ کرکے بھی دکھائے گا وہ وہاں سے نکل کر اپنے روم میں آئی اور معید کو کال کرنے لگی۔

   1
0 Comments